منگل 11 نومبر 2025 - 05:27
تاریخِ نسواں | جاہل اور قبائلی اقوام میں عورتوں کی دردناک زندگی

حوزہ/ پسماندہ قوموں میں عورت کو نہ کوئی حق حاصل تھا اور نہ ہی زندگی میں کوئی اختیار۔ اسے مرد کے تابع سمجھا جاتا تھا، اور باپ یا شوہر کو اس پر مکمل اختیار حاصل ہوتا تھا۔ مرد اپنی بیوی کو بیچ سکتا تھا، کسی کو تحفے میں دے سکتا تھا، یا حتیٰ کہ قتل بھی کر سکتا تھا۔ عورتوں پر اندھی اطاعت لازم تھی، وہ سخت ترین کاموں پر مجبور کی جاتی تھیں اور بدسلوکی برداشت کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک بےوقعت شے یا مالِ تجارت کی طرح برتاؤ کیا جاتا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی| مرحوم علامہ طباطبائیؒ جو عظیم تفسیر المیزان کے مصنف ہیں نے سورۂ بقرہ کی آیات ۲۲۸ سے ۲۴۲ کے ذیل میں عورت کے حقوق، مقام اور معاشرتی حیثیت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ذیل میں ان کے بیانات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

پسماندہ اقوام میں عورت کی زندگی

ان جاہل اقوام اور قبائل میں عورت کی زندگی مردوں کی نظر میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ وہ عورت کو محض مرد کی زندگی کا تابع سمجھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ عورت صرف مرد کی خاطر پیدا کی گئی ہے۔ یہ عقیدہ اتنا سطحی تھا کہ اس پر غور و فکر تک نہیں کیا جاتا تھا۔

ان کے نزدیک عورت کی ہستی اور زندگی مرد کے وجود کی پیروی کرتی تھی؛ بالکل جانوروں کی طرح، جنہیں نہ کوئی حق حاصل ہوتا ہے اور نہ زندگی میں کوئی اختیار۔

عورت اگر غیرشادی شدہ ہوتی تو باپ کی ولایت اور اختیار میں رہتی، اور شادی کے بعد شوہر کے زیرِ تسلط آ جاتی — ایسا تسلط جو مکمل اور بے حد و شرط تھا۔

ان معاشروں میں مرد اپنی بیوی کو جسے چاہے بیچ سکتا تھا، کسی کو تحفے میں دے سکتا تھا، یا کسی دوسرے کو وقتی طور پر دے دیتا تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے — چاہے وہ فائدہ جنسی ہو، خدمت کے طور پر ہو، یا بچے پیدا کرنے کے لیے۔

مرد کو یہ بھی اختیار تھا کہ عورت کو سزا دے، مارے پیٹے، قید کرے، بھوکا پیاسا رکھے، یا حتیٰ کہ قتل کر دے — چاہے عورت زندہ رہے یا مر جائے، اسے کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔

بلکہ بعض قبائل میں یہ رسم تھی کہ قحط سالی یا جشن کے موقع پر عورت کو موٹا کر کے ذبح کر دیتے اور اس کا گوشت کھاتے تھے۔ عورت کی ملکیت میں جو کچھ ہوتا، مرد اسے اپنا مال سمجھتا۔

عورت کے تمام حقوق مرد کے حقوق کے تابع سمجھے جاتے تھے، خصوصاً مالی معاملات میں مرد ہی کو پورا اختیار حاصل تھا۔

سخت ترین مردانہ کاموں کی ذمہ دار

عورت پر لازم تھا کہ مرد "خواہ باپ ہو یا شوہر" کے ہر حکم کی اندھی تقلید کرے، چاہے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔

گھر کے تمام کام، بچوں کی دیکھ بھال، اور شوہر کی ضروریات پوری کرنا عورت کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔

اس پر یہ بوجھ بھی تھا کہ سخت سے سخت کام برداشت کرے، بھاری سامان اٹھائے، مٹی کے کام کرے، اور معمولی درجے کے پیشوں میں کام کرے۔

کچھ قبائل میں حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ اگر عورت حاملہ ہو اور بچہ پیدا کرے تو فوراً بعد وہ دوبارہ گھریلو کاموں میں لگ جاتی، جبکہ اس کا شوہر، جو بالکل صحت مند ہوتا، بیماری کا بہانہ بنا کر بستر پر لیٹ جاتا اور عورت پر لازم ہوتا کہ اس کی تیمارداری کرے۔

یہ وہ عمومی حالات تھے جن میں عورت زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ وہ معاشرتی طور پر مظلوم اور انسانی حقوق سے محروم تھی۔

ہر قوم اور قبیلے کے رسوم و رواج، ماحول، اور وراثتی عادات کے مطابق ان مظالم کی شکلیں مختلف تھیں۔ جو کوئی بھی تاریخِ اقوام یا قدیم تمدنوں کی کتابیں دیکھے، وہ ان ظالمانہ رسموں سے بخوبی واقف ہو جائے گا۔

(جاری ہے...)

(منبع: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد دوم، صفحہ ۳۹۵)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha